میرا سب کچھ پاکستان میں ہے، بیرون ملک نہیں بھاگوں گا، عمران خان
میری کوئی بےنامی جائیداد نہیں ہے، تمام اثاثے ڈکلیئرڈ ہیں، جائیداد کی تفصیلات ویب سائٹ پر ہیں،
اقتدار میں کاروبار نہیں کیا، اگر آج کاروبار شروع کردوں تو میرے لیے سب کچھ کرنا آسان ہوگا، ذاتی طور پر گلگت کو صوبے کا درجہ دینا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم عمران خان کا نجی ٹی وی کوانٹرویو
اسلام آباد ( یکم اکتوبر2020ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میر اسب کچھ پاکستان میں ہے، بیرون ملک نہیں بھاگوں گا، میری کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے،
تما اثاثے ڈکلیئر ڈ ہیں، جائیداد کی تفصیلات ویب سائٹ پر ہیں، میں بھی اقتدار میں کاروبار شروع کردوں تو میرے لیے سب کچھ کرنا آسان ہوگا۔
انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سول اور ملٹری تعلقات ایک مسئلہ رہاہے۔
اس کی تاریخ ہے، 58ء میں مارشل لاء لگا، لیکن کیا ماضی میں فوج سے کوئی غلطی ہوئی تو کیا ہم نے پوری فوج کو برا بھلا کہنا ہے،
جسٹس منیر سے غلطی ہوئی تو پوری عدلیہ کو برا کہناہے؟ کچھ لوگ پیسا ملک سے باہر لے کرجاتے ہیں تو سارے سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں،
ملٹری کا کام ملک چلانا نہیں، مارشل لاء کے آنے کا مطلب یہ نہیں فوج آجائے بلکہ جمہوریت کو ٹھیک کرنا ہوگا، موجودہ سول ملٹری تعلقات سب سے بہتر ہے،
فوج حکومت کے پیچھے کھڑی ہے، پاکستانی فوج بدل چکی ہے، جمہوری حکومت اپنے منشور میں کام کررہی ہے فوج ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سوال پوچھتا ہوں کہ میری پارٹی کی پالیسی تھی کہ افغانستان کے مسئلے کا حل ملٹری حل نہیں،
امریکا کی جنگ میں ہمیں نہیں پڑنا چاہیے تھا،آج پاکستانی فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے،
ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش پر فوج ساتھ تھی۔ کرتار پور کے مسئلے پر ساتھ کھڑی تھی،
اپوزیشن کا مسئلہ ہے، نوازشریف کبھی جمہوری نہیں تھا، جنرل جیلانی نے پالا، منہ میں چوسنی دے کر سیاستدان بنایا، وزیرخزانہ بنایا،
لیکن یہ ایک دم سُپر جمہوری بن گیا،صدر اسحاق سے ، جنرل آصف جنجوعہ ، پھر جنرل مشرف اور پھر جنرل راحیل کے ساتھ مشکل آگئی، پھر جنرل باجوہ کے ساتھ ان کو مسئلہ بن گیا، لیکن یہ چوری کرنے آتے ہیں،
آئی ایس آئی اور ایم آئی ورلڈ کلاس ایجنسی ہے، ان کو چوری کا پتا چل جاتا ہے، یہ عدلیہ کو کنٹرول کرلیتے تھے،فوج سے لڑائی یہی ہوتی کہ ان کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے ۔
اب کہتے جنرل ظہرنے کہا کہ آپ استعفیٰ دیں، میں جمہوری وزیر اعظم ہوں، کس کی جرات ہے مجھے کہے استعفیٰ دو،
میں ہوتا تو استعفیٰ مانگنے والوں سے استعفے کا مطالبہ کرتا۔جنرل مشرف جب سری لنکا گیا تو جنرل ضیاء کو بلا کر کہتا میں آپ آرمی چیف ڈکلیئر کرتا ہوں،
میرے پوچھے بغیر اگر کوئی جنرل کارگل پر حملہ کرتا تو میں آرمی چیف کو بلا کر ہٹا دیتا۔