ہاتھ میں دودھ کا گلاس لیے اور سر کو جھکائے میں بیڈ روم میں داخل ہوئی۔ مجھے اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ مجھے بڑا دھچکہ لگنے والا ہے۔ میرے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہی وہ سو چکا تھا۔ 35 سال کی عمر تک میں کنواری رہی۔ اپنے شوہر کے ایسا کرنے سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے شوہر نے میرے پورے وجود کو مسترد کر دیا ہے۔
نہ صرف کالج بلکہ دفتر میں بھی میں نے بہت سے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان گہری محبت دیکھی تھی۔ وہ اپنے ساتھی کے کندھے سے سر لگائے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتے تھے۔ اس وقت میں سوچا کرتی تھی کہ کاش میرے ساتھ بھی کوئی ہوتا۔ کیا مجھے ایسے کسی ساتھی کی تمنا نہیں کرنی چاہیے تھی؟ میرا خاندان بہت بڑا تھا۔ چار بھائی، ایک بہن اور بوڑھے والدین۔ اس کے باوجود میں ہمیشہ تنہا محسوس کرتی تھی۔
بڑھتی عمر کے باوجود میں تنہا تھی
میرے تمام بھائی بہن شادی شدہ تھے اور ان کا اپنا خاندان تھا۔ کبھی کبھی میں سوچتی کہ کیا وہ میری پروا بھی کرتے ہیں کہ میری عمر بڑھ رہی ہے اور میں اب تک تنہا ہوں۔ میرے دل میں بھی محبت کی خواہش تھی لیکن وہ تنہائیوں میں گھری تھی۔ کبھی مجھے لگتا کہ یہ صرف میرے موٹاپے کی وجہ سے ہے۔ کیا مرد موٹی لڑکیوں کو ناپسند کرتے ہیں؟ کیا میرے وزن کی وجہ سے میرے گھر کے لوگوں کو رشتہ نہیں مل پا رہا ہے؟ کیا میں ہمیشہ تنہا ہی رہوں گی؟ یہ سوال ہمیشہ میرے ذہن میں گھومتے رہتے۔
شادی کے بعد میری الجھن
بالآخر جب میں 35 سال کی ہوئی تو مجھ سے 40 سال کا ایک شخص شادی کرنے کے لیے سامنے آيا۔ ملاقات کے دوران میں نے اسے اپنے جذبات اور خیالات کے بارے میں بتایا۔
لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی اور نہ ہی اس کا کوئی جواب دیا۔ وہ قدرے پریشان لگا۔ وہ خاموشی سے نظریں نیچی کیے سر ہلاتا رہا۔میں نے سوچا کہ آج کل خواتین سے زیادہ مرد شرمیلے ہوتے ہیں اور میرا ہونے والا شوہر بھی ویسا ہی ہے۔ شاید اسی لیے اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن شادی کی رات ہونے والی واردات نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ مجھے پتہ نہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
جب میں نے اپنے شوہر سے اگلی صبح پوچھا تو اس نے کہا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ لیکن اس کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہماری دوسری، تیسری، اور بہت سے راتیں اس طرح ہی گزر گئيں۔
میری ساس نے میرے شوہر کا دفاع کیا
جب میں نے ساس کو بتایا تو انھوں نے بھی اپنے بیٹے کا دفاع کیا۔ انھوں نے کہا ’وہ شرمیلا ہے، وہ بچپن سے ہی لڑکیوں سے گفتگو کرنے میں ہچکچاتا ہے۔ اس نے لڑکوں کے سکول میں تعلیم حاصل کی ہے، اس کی بہن ہے اور نہ کوئی خاتون دوست۔’ اگرچہ مجھے اس سے عارضی تسلی تو ملی لیکن میں اس موضوع کے بارے میں سوچنا ترک نہ کر سکی۔ میری تمام امیدیں، خواب اور خواہشات دن بہ دن ٹوٹ رہی تھیں۔ میری بے چینی کا واحد سبب جنسی تعلق نہیں تھا۔ وہ مجھ سے بات بھی بہت کم کرتا۔ مجھے لگتا کہ ہمیشہ مجھے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ چھونا پکڑنا تو دور کی بات وہ تو مجھ سے دور بھاگتا تھا۔
میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا
کیا میرا وزن ان کے اس رویے کا سبب ہے؟ کیا انھوں نے مجھ سے کسی دباؤ میں شادی کی ہے؟ میں نہیں جانتی تھی کہ یہ باتیں کس سے کہوں۔ میں اپنے خاندان والوں سے بات نہیں کر سکتی تھی کیونکہ سب یہی سوچ رہے تھے کہ میں بہت خوش ہوں۔ لیکن میرے صبر کا بندھن ٹوٹ رہا تھا۔ مجھے اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔ عام طور پر چھٹیوں والے دن بھی وہ گھر پر نہیں رہتا تھا، وہ یا تو اپنے کسی دوست کے گھر یا اپنے والدین کو باہر لے جاتا۔ اتفاق سے اُس دن وہ گھر پر ہی تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر لیا۔ وہ تیزی سے اپنے بستر سے اٹھے جیسے چھلانگ لگا دی ہو۔ میں ان کے پاس گئی اور پیار سے پوچھا: ‘کیا تم مجھے پسند نہیں کرتے ہو؟ آپ نے ابھی تک مجھے اپنے جذبات کے بارے میں بھی نہیں بتایا ہے، پھر آپ کا کیا مسئلہ ہے؟’ انھوں نے جواب دیا: ‘مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔