لاہور (ویب ڈیسک) جی۔ تبدیل شدہ دنیا میں سب ممکن ہے، رسول پاک، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود اپنے ہاتھوں سے بت شکنی کی تھی،
اور ان کی شریعت مطہرہ پہ عمل کرتے ہوئے ان کے ایک افغانی غلام محمود غزنویؒ نے سومنات کے مندر میں سونے چاندیوں سے بنے بتوں کو پاش پاش
نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کردیا تھا، حضور کے ایک اور غلام ضیاءالحق مرحوم نے خود بھارت جاکر بھارتی حکمران راجیو گاندھی کو اعلانیہ سمجھایا تھا،
کہ دنیا بھر میں ہندوستان محض ایک کافروں کا ملک ہے۔ جبکہ مسلمان ملکوں کی تعداد پونے دوسو کے قریب ہے،
اگر ہم نے بم گرایا تو دلی سمیت ہندوستان اُڑ جائے گا، جبکہ بھارت نے اگر ہم پہ بم گرایا، تو مسلمان ملک تو سارے بچ جائیں گے لہٰذا ہوش کے ناخن لیں،
اور عقل سے کام لیں، یہ سنکر راجیو گاندھی کو سکتہ طاری ہوگیا، اور وہ کتنی دیرتک اسی عالم میں خاموش کھڑا ہوکر واپس جانا ہی بھول گیا،
اور پھر ہوش میں آتے ہی سرحدوں پر بیٹھی بھارتی فوج کو واپسی کا حکم جاری کردیا۔ اب دنیا بھر کے مسلمان ملک،
اپنے ملکوں کا سب سے بڑا ایوارڈ مودی کو کیوں دے رہے ہیں؟ اس پر تھوڑا سا غورکریں، تو عقدہ سمجھ میں آجاتا ہے۔
کہ ”سی پیک“ منصوبے کا مودی سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں، اِس کو ناکام بنانے کیلئے فی الفور مودی ایران اور امریکہ جادھمکا تھا،
اور ان حکمرانوں کو یہ سمجھایا تھا کہ اگر سی پیک منصوبہ پہ عمل درآمد شروع ہوگیا، تو پھر آپ لوگوں کی بندرگاہوں پہ قبرستانوں کی خاموشی چھا جائے گی۔
آپ کی بندرگاہوں میں تو ایک آدھا جہاز ہی لنگرانداز ہوسکتا ہے جبکہ اگر گوادر کی بندرگاہ جو مسقط کے حکمران سے پاکستان نے خریدی تھی۔
اس پر بیک وقت درجنوں جہاز لنگر انداز ہوسکیں گے،
اب اس خطرے پہ قابو پانے کے لیے درپردہ خطہ عرب کے حکمران مودی کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ جنت کی بات تو بعد کی ہے، مودی سعودی عرب میں داخل ہوگیا ہے۔
اس منصوبے پہ عمل درآمد کے حوالے سے امریکہ اور چین کی سردجنگ کافی عرصے سے جاری ہے،
اس پہ مزید بات کرنے سے قبل ذرا ان حقائق پہ غورکرلیں جنرل حمیدگل مرحوم جن کے ساتھ میرے خاندانی تعلقات ہیں،
اور ان کی بیٹی محترمہ عظمیٰ گل سے بھی میرا رابطہ میرے دل کا آپریشن ہونے سے قبل تک جاری تھا، جنرل حمیدگل مرحوم سے کسی نے سوال کیا تھا، کہ آپ نے آرمی چیف بننا تھا،
آپ چیف کیوں نہ بن سکے انہوں نے کہا امریکہ نے بالکل یہی سوال میں نے اپنے ہمسائے اور ساتھی ڈی جی آئی ایس پی آئی۔
لیفٹیننٹ جنرل رجاوید ناصر صاحب جن سے میں اکثر دینی معاملات کو سمجھنے کے لیے راہ نمائی حاصل کرتا رہتا ہوں،
ان سے پوچھا، کہ آپ کو کیوں امریکہ نے چیف نہیں بننے دیا انہوں نے کہا مجھ جیسے باریش چیف کو وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا۔
اب ہمارے ملک میں ان کا صوابدیدی اختیار اگر اتنا ہے تو حکمران کس کی مرضی سے بنتا ہوگا؟ جبکہ ہم مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے ۔
کہ حکمران اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مرضی سے بنتے ہیں، اور یہ کہ جیسی رعایا ہوتی ہے، ویسے ہی حکمران مسلط کردیئے جاتے ہیں،
مہنگائی کا رونا دھونا بھی اس لیے جائز نہیں کہ روزانہ صبح فرشتے آکر قیمتوں کا تعین کرتے تھے،تو پھر حکمرانوں سے کیا گلہ،
کہ ڈالر کی قدر کیوں بڑھا دی، اور روپے کی کیوں گھٹا دی…. اس کا حل بھی ممکن ہے مگر اس کے لیے پوری رعایا کو باعمل مسلمان ہونا پڑے گا، اور پوری کابینہ کو بھی ۔
ہاہ مگر ایک ایسی نئی بات، اور ایک ایسی تبدیلی، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پہلے پاکستانی حکمرانوں کے لیے حرمین شریفین کے دروازے کھول دیئے جاتے تھے
اور انہیں بطور خاص اندر جانے کی اجازت مرحمت فرمائی جاتی تھی۔مگر اب ہمارے حکمران کے لیے ”وہائٹ ہاﺅس“ کے دروازے کھول دیئے گئے اور اندر سے بھی انہیں وہائٹ ہاﺅس دکھایا گیا،
اب اندر اس میں کیا کچھ شامل تھا مجھے تو نہیں معلوم، شاید شاہ محمود قریشی کو بھی نہیں معلوم،
کیونکہ انہیں بھی اندر جانے سے روک دیا گیا تھا، جبکہ پاکستان میں ساری اپوزیشن کو اندر کردیا گیا